EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہمارے کاندھے پہ اس بار صرف آنکھیں ہیں
ہمارے کاندھے پہ اس بار سر نہیں ہے کوئی

سرفراز خالد




ہوش جاتا رہا دنیا کی خبر ہی نہ رہی
جب کہ ہم بھول گئے خود کو وہ تب یاد آیا

سرفراز خالد




ابتدا اس نے ہی کی تھی مری رسوائی کی
وہ خدا ہے تو گنہ گار نہیں ہوں میں بھی

سرفراز خالد




ابتدا اس نے ہی کی تھی مری رسوائی کی
وہ خدا ہے تو گنہ گار نہیں ہوں میں بھی

سرفراز خالد




اک تو نے ہی نہیں کی جنوں کی دکان بند
سودا کوئی ہمارے بھی سر میں نہیں رہا

سرفراز خالد




جو تم کہتے ہو مجھ سے پہلے تم آئے تھے محفل میں
تو پھر تم ہی بتاؤ آج کیا کیا ہونے والا ہے

سرفراز خالد




خواب میلے ہو گئے تھے ان کو دھونا چاہئے تھا
رات کی تنہائیوں میں خوب رونا چاہئے تھا

سرفراز خالد