ہمارے کاندھے پہ اس بار صرف آنکھیں ہیں
ہمارے کاندھے پہ اس بار سر نہیں ہے کوئی
سرفراز خالد
ہوش جاتا رہا دنیا کی خبر ہی نہ رہی
جب کہ ہم بھول گئے خود کو وہ تب یاد آیا
سرفراز خالد
ابتدا اس نے ہی کی تھی مری رسوائی کی
وہ خدا ہے تو گنہ گار نہیں ہوں میں بھی
سرفراز خالد
ابتدا اس نے ہی کی تھی مری رسوائی کی
وہ خدا ہے تو گنہ گار نہیں ہوں میں بھی
سرفراز خالد
اک تو نے ہی نہیں کی جنوں کی دکان بند
سودا کوئی ہمارے بھی سر میں نہیں رہا
سرفراز خالد
جو تم کہتے ہو مجھ سے پہلے تم آئے تھے محفل میں
تو پھر تم ہی بتاؤ آج کیا کیا ہونے والا ہے
سرفراز خالد
خواب میلے ہو گئے تھے ان کو دھونا چاہئے تھا
رات کی تنہائیوں میں خوب رونا چاہئے تھا
سرفراز خالد