ہم بند کیے آنکھ تصور میں پڑے ہیں
ایسے میں کوئی چھم سے جو آ جائے تو کیا ہو
ریاضؔ خیرآبادی
ہم جام مے کے بھی لب تر چوستے نہیں
چسکا پڑا ہوا ہے تمہاری زبان کا
ریاضؔ خیرآبادی
ہم جانتے ہیں لطف تقاضائے مے فروش
وہ نقد میں کہاں جو مزا ہے ادھار میں
ریاضؔ خیرآبادی
ہم جانتے ہیں لطف تقاضائے مے فروش
وہ نقد میں کہاں جو مزا ہے ادھار میں
ریاضؔ خیرآبادی
ہم کو ریاضؔ جانتے ہیں مانتے ہیں سب
ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ریاضؔ خیرآبادی
ہم نے دیکھا طرف میکدہ جاتے تھے ریاضؔ
اک عصا تھامے عبا پہنے عمامہ باندھے
ریاضؔ خیرآبادی
ہماری آنکھوں میں آؤ تو ہم دکھائیں تمہیں
ادا تمہاری جو تم بھی کہو کہ ہاں کچھ ہے
ریاضؔ خیرآبادی