کعبہ و دیر جدھر دیکھا ادھر کثرت ہے
آہ کیا جانے کدھر گوشۂ تنہائی ہے
رضا عظیم آبادی
کعبے میں شیخ مجھ کو سمجھے ذلیل لیکن
سو شکر میکدے میں ہے اعتبار اپنا
رضا عظیم آبادی
کعبے میں شیخ مجھ کو سمجھے ذلیل لیکن
سو شکر میکدے میں ہے اعتبار اپنا
رضا عظیم آبادی
خوشا ہو کر بتاں کب عاشقوں کو یاد کرتے ہیں
رضاؔ حیراں ہوں میں کس بات پر ہے اتنا بھولا تو
رضا عظیم آبادی
خواہ کافر مجھے کہہ خواہ مسلمان اے شیخ
بت کے ہاتھوں میں بکا یا ہوں خدا کی سوگند
رضا عظیم آبادی
کس طرح رضاؔ تو نہ ہو دھوانے زمانہ
جب دل سا تری بیٹھا ہو بدنام بغل میں
رضا عظیم آبادی
کیا کہیں اپنی سیہ بختی ہی کا اندھیر ہے
ورنہ سب کی ہجر کی رات ایسی کالی بھی نہیں
رضا عظیم آبادی