میں ریت کا محل ہوں مرے پاسباں درخت
سینے پہ روک لیتے ہیں سب آندھیاں درخت
دیکھے گئے تھے جس کے تلے دو جواں بدن
لوگوں نے ٹکڑے ٹکڑے کیا وہ جواں درخت
ڈھونڈیں گے اب پرند کہاں شام کو پناہ
جنگل کی آگ کھا گئی سب ڈالیاں درخت
پھل دار تھا تو گاؤں اسے پوجتا رہا
سوکھا تو قتل ہو گیا وہ بے زباں درخت
سورج تھا دکھ کا سر پہ کہ تھیں غم کی بارشیں
دشت سفر میں میرے بنے سائباں درخت
کیسی ہوا چلی ہے کہ پھر چیخ چیخ کر
سب کو سنا گئے ہیں مری داستاں درخت
سو بار میرے جسم کو چھو کر گئی بہار
پھر بھی ہوں اشکؔ سوکھا ہوا نیم جاں درخت
غزل
میں ریت کا محل ہوں مرے پاسباں درخت
پروین کمار اشک