EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ
کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا

مضطر خیرآبادی




پہلے ہم میں تھے اور اب ہم سے جدا رہتے ہیں
آپ کاہے کو غریبوں سے خفا رہتے ہیں

مضطر خیرآبادی




پردے والے بھی کہیں آتے ہیں گھر سے باہر
اب جو آ بیٹھے ہو تم دل میں تو بیٹھے رہنا

مضطر خیرآبادی




پھونکے دیتا ہے کسی کا سوز پنہانی مجھے
اب تو میری آنکھ بھی دیتی نہیں پانی مجھے

مضطر خیرآبادی




قاصد نے خبر آمد دلبر کی اڑا دی
آیا بھی تو کم بخت نے بے پر کی اڑا دی

مضطر خیرآبادی




قبر پر کیا ہوا جو میلا ہے
مرنے والا نرا اکیلا ہے

مضطر خیرآبادی




قیس نے پردۂ محمل کو جو دیکھا تو کہا
یہ بھی اللہ کرے میرا گریباں ہو جائے

مضطر خیرآبادی