EN हिंदी
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں | شیح شیری
ab ye sochun to bhanwar zehn mein paD jate hain

غزل

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں

محسن نقوی

;

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں

کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں

موسم زرد میں اک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

اب کوئی کیا مرے قدموں کے نشاں ڈھونڈے گا
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں

شغل ارباب ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ
پتھروں میں بھی کبھی آئنے جڑ جاتی ہیں

سوچ کا آئنہ دھندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں

شدت غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی
کچھ دیئے تند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں

وہ بھی کیا لوگ ہیں محسنؔ جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اصولوں پہ بھی اڑ جاتے ہیں