EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مسافرانہ رہا اس سرائے ہستی میں
چلا پھرا میں زمانہ میں رہ گزر کی طرح

مرزا مسیتابیگ منتہی




نہ بند کر اسے فصل بہار میں ساقی
نہ ڈال دختر رز کا اچار شیشے میں

مرزا مسیتابیگ منتہی




پھاڑ ہی ڈالوں گا میں اک دن نقاب روئے یار
پھینک دوں گا کھود کر گلزار کی دیوار کو

مرزا مسیتابیگ منتہی




پیری ہوئی شباب سے اترا جھٹک گیا
شاعر ہوں میرا مصرع ثانی لٹک گیا

مرزا مسیتابیگ منتہی




صدائے قلقل مینا مجھے نہیں آتی
مرے سوال کا شیشے میں کچھ جواب نہیں

مرزا مسیتابیگ منتہی




سکھلا رہا ہوں دل کو محبت کے رنگ ڈھنگ
کرتا ہوں میں مکان کی تعمیر آج کل

مرزا مسیتابیگ منتہی




تارک دنیا ہے جب سے منتہیؔ
مثل بیوہ مادر ایام ہے

مرزا مسیتابیگ منتہی