مسافرانہ رہا اس سرائے ہستی میں
چلا پھرا میں زمانہ میں رہ گزر کی طرح
مرزا مسیتابیگ منتہی
نہ بند کر اسے فصل بہار میں ساقی
نہ ڈال دختر رز کا اچار شیشے میں
مرزا مسیتابیگ منتہی
پھاڑ ہی ڈالوں گا میں اک دن نقاب روئے یار
پھینک دوں گا کھود کر گلزار کی دیوار کو
مرزا مسیتابیگ منتہی
پیری ہوئی شباب سے اترا جھٹک گیا
شاعر ہوں میرا مصرع ثانی لٹک گیا
مرزا مسیتابیگ منتہی
صدائے قلقل مینا مجھے نہیں آتی
مرے سوال کا شیشے میں کچھ جواب نہیں
مرزا مسیتابیگ منتہی
سکھلا رہا ہوں دل کو محبت کے رنگ ڈھنگ
کرتا ہوں میں مکان کی تعمیر آج کل
مرزا مسیتابیگ منتہی
تارک دنیا ہے جب سے منتہیؔ
مثل بیوہ مادر ایام ہے
مرزا مسیتابیگ منتہی

