EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہو غریبوں کا چاک خاک رفو
تار ہاتھ آئے جب نہ دامن سے

مردان علی خاں رانا




ہوا یقیں کہ زمیں پر ہے آج چاند گہن
وہ ماہ چہرے پہ جب ڈال کر نقاب آیا

مردان علی خاں رانا




جس کو دیکھو وو نور کا بقعہ
یہ پرستان ہے کہ لندن ہے

مردان علی خاں رانا




جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے
قطرۂ اشک دیدۂ تر ہے

مردان علی خاں رانا




جو چیز ہے جہان میں وہ بے مثال ہے
ہر فرد خلق وحدت حق پر دلیل ہے

مردان علی خاں رانا




کہنا قاصد کہ اس کے جینے کا
وعدۂ وصل پر مدار ہے آج

مردان علی خاں رانا




کٹا تھا روز مصیبت خدا خدا کر کے
یہ رات آئی کہ سر پہ مرے عذاب آیا

مردان علی خاں رانا