غم سوا عشق کا مآل نہیں
کون دل ہے جو پائمال نہیں
مردان علی خاں رانا
ہاتھوں میں نازکی سے سنبھلتی نہیں جو تیغ
ہے اس میں کیا گناہ تیرے جاں نثارؔ کا
مردان علی خاں رانا
ہمارے مرگ پہ شادی عبث اغیار کرتے ہیں
جہاں سے رفتہ رفتہ ایک دن ان کو بھی جانا ہے
مردان علی خاں رانا
ہر دم دم آخر ہے اجل سر پہ کھڑی ہے
دم بھر بھی ہم اس دم کا بھروسہ نہیں کرتے
مردان علی خاں رانا
ہر دم یہ دعا مانگتے رہتے ہیں خدا سے
اللہ بچائے شب فرقت کی بلا سے
مردان علی خاں رانا
ہرجائیوں کے عشق نے کیا کیا کیا ذلیل
رسوا رہے خراب رہے در بدر رہے
مردان علی خاں رانا
ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے
بس یہی موت کا بہانہ ہے
مردان علی خاں رانا

