یہاں ہے دھوپ وہاں سائے ہیں چلے جاؤ
یہ لوگ لینے تمہیں آئے ہیں چلے جاؤ
بلاوا آیا ہے جانے میں کوئی حرج نہیں
یہاں بھی دکھ ہی سدا پائے ہیں چلے جاؤ
وہ جس کے واسطے بلوایا جا رہا ہے تمہیں
اگر یہ لوگ اسے لائے ہیں چلے جاؤ
پڑے رہوگے یہاں کب تلک برے حالوں
وہاں تو حسن کے سرمائے ہیں چلے جاؤ
میں کیا بتاؤں وہاں کیا ہے جو نہیں ہے یہاں
نشاط روح کے پیرائے ہیں چلے جاؤ
میں روک پاؤں گا آنسو نہ رخصتی پہ مگر
کہار ڈولی جو لے آئے ہیں چلے جاؤ
تمہیں تو قبر کی مٹی بھی اب پکارتی ہے
یہاں کے لوگ بھی اکتائے ہیں چلے جاؤ
گریز اتنا بھی صابر ظفرؔ نہیں اچھا
پیام اس نے جو بھجوائے ہیں چلے جاؤ
غزل
یہاں ہے دھوپ وہاں سائے ہیں چلے جاؤ
صابر ظفر