EN हिंदी
ہر ایک مرحلۂ درد سے گزر بھی گیا | شیح شیری
har ek marhala-e-dard se guzar bhi gaya

غزل

ہر ایک مرحلۂ درد سے گزر بھی گیا

صابر ظفر

;

ہر ایک مرحلۂ درد سے گزر بھی گیا
فشار جاں کا سمندر وہ پار کر بھی گیا

خجل بہت ہوں کہ آوارگی بھی ڈھب سے نہ کی
میں در بدر تو گیا لیکن اپنے گھر بھی گیا

یہ زخم عشق ہے کوشش کرو ہرا ہی رہے
کسک تو جا نہ سکے گی اگر یہ بھر بھی گیا

گزرتے وقت کی صورت ہوا نہ بیگانہ
اگر کسی نے پکارا تو میں ٹھہر بھی گیا