ہر ایک مرحلۂ درد سے گزر بھی گیا
فشار جاں کا سمندر وہ پار کر بھی گیا
خجل بہت ہوں کہ آوارگی بھی ڈھب سے نہ کی
میں در بدر تو گیا لیکن اپنے گھر بھی گیا
یہ زخم عشق ہے کوشش کرو ہرا ہی رہے
کسک تو جا نہ سکے گی اگر یہ بھر بھی گیا
گزرتے وقت کی صورت ہوا نہ بیگانہ
اگر کسی نے پکارا تو میں ٹھہر بھی گیا
غزل
ہر ایک مرحلۂ درد سے گزر بھی گیا
صابر ظفر