EN हिंदी
وہ کیوں نہ روٹھتا میں نے بھی تو خطا کی تھی | شیح شیری
wo kyun na ruThta maine bhi to KHata ki thi

غزل

وہ کیوں نہ روٹھتا میں نے بھی تو خطا کی تھی

صابر ظفر

;

وہ کیوں نہ روٹھتا میں نے بھی تو خطا کی تھی
بہت خیال رکھا تھا بہت وفا کی تھی

سنا ہے ان دنوں ہم رنگ ہیں بہار اور آگ
یہ آگ پھول ہو میں نے بہت دعا کی تھی

نہیں تھا قرب میں بھی کچھ مگر یہ دل مرا دل
مجھے نہ چھوڑ بہت میں نہ التجا کی تھی

سفر میں کشمکش مرگ و زیست کے دوران
نہ جانے کس نے مجھے زندگی عطا کی تھی

سمجھ سکا نہ کوئی بھی مری ضرورت کو
یہ اور بات کہ اک خلق اشتراکی تھی

یہ ابتدا تھی کہ میں نے اسے پکارا تھا
وہ آ گیا تھا ظفرؔ اس نے انتہا کی تھی