اٹھی نگاہ تو اپنے ہی رو بہ رو ہم تھے
زمین آئینہ خانہ تھی چار سو ہم تھے
دنوں کے بعد اچانک تمہارا دھیان آیا
خدا کا شکر کہ اس وقت با وضو ہم تھے
وہ آئینہ تو نہیں تھا پر آئینے سا تھا
وہ ہم نہیں تھے مگر یار ہو بہو ہم تھے
زمیں پہ لڑتے ہوئے آسماں کے نرغے میں
کبھی کبھی کوئی دشمن کبھو کبھو ہم تھے
ہمارا ذکر بھی اب جرم ہو گیا ہے وہاں
دنوں کی بات ہے محفل کی آبرو ہم تھے
خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر
جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے
غزل
اٹھی نگاہ تو اپنے ہی رو بہ رو ہم تھے
راحتؔ اندوری