جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے
قیصر الجعفری
جس دن سے بنے ہو تم مسیحا
حال اور خراب ہو گیا ہے
قیصر الجعفری
ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی
ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا
قیصر الجعفری
ہر شخص ہے اشتہار اپنا
ہر چہرہ کتاب ہو گیا ہے
قیصر الجعفری
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
قیصر الجعفری
فن وہ جگنو ہے جو اڑتا ہے ہوا میں قیصرؔ
بند کر لو گے جو مٹھی میں تو مر جائے گا
قیصر الجعفری
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
قیصر الجعفری
دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی
دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا
قیصر الجعفری
بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے
شام ڈھلے بھی گھر پہنچوں تو آدھی رات لگے
قیصر الجعفری