کم سے کم ریت سے آنکھیں تو بچیں گی قیصرؔ
میں ہواؤں کی طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہوں
قیصر الجعفری
آج برسوں میں تو قسمت سے ملاقات ہوئی
آپ منہ پھیر کے بیٹھے ہیں یہ کیا بات ہوئی
قیصر الجعفری
جس دن سے بنے ہو تم مسیحا
حال اور خراب ہو گیا ہے
قیصر الجعفری
ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی
ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا
قیصر الجعفری
ہر شخص ہے اشتہار اپنا
ہر چہرہ کتاب ہو گیا ہے
قیصر الجعفری
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
قیصر الجعفری
فن وہ جگنو ہے جو اڑتا ہے ہوا میں قیصرؔ
بند کر لو گے جو مٹھی میں تو مر جائے گا
قیصر الجعفری
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
قیصر الجعفری
دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی
دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا
قیصر الجعفری