دل بے تب و تاب ہو گیا ہے
آئینہ خراب ہو گیا ہے
ہر شخص ہے اشتہار اپنا
ہر چہرہ کتاب ہو گیا ہے
ہر سانس سے آ رہی ہیں لپکیں
ہر لمحہ عذاب ہو گیا ہے
جس دن سے بنے ہو تم مسیحا
حال اور خراب ہو گیا ہے
ہونٹوں پہ کھلا ہوا تبسم
زخموں کی نقاب ہو گیا ہے
سوچا تھا تو عشق تھا حقیقت
دیکھا ہے تو خواب ہو گیا ہے
قیصرؔ غم زندگی سمٹ کر
اک جام شراب ہو گیا ہے
غزل
دل بے تب و تاب ہو گیا ہے
قیصر الجعفری