صدیوں طویل رات کے زانو سے سر اٹھا
سورج افق سے جھانک رہا ہے نظر اٹھا
اتنی بری نہیں ہے کھنڈر کی زمین بھی
اس ڈھیر کو سمیٹ نئے بام و در اٹھا
ممکن ہے کوئی ہاتھ سمندر لپیٹ دے
کشتی میں سو شگاف ہوں لنگر مگر اٹھا
شاخ چمن میں آگ لگا کر گیا تھا کیوں
اب یہ عذاب در بدری عمر بھر اٹھا
منزل پہ آ کے دیکھ رہا ہوں میں آئنہ
کتنا غبار تھا جو سر رہ گزر اٹھا
صحرا میں تھوڑی دیر ٹھہرنا غلط نہ تھا
لے گرد باد بیٹھ گیا اب تو سر اٹھا
دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی
دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا
قیصرؔ متاع دل کا خریدار کون ہے
بازار اجڑ گیا ہے دکان ہنر اٹھا
غزل
صدیوں طویل رات کے زانو سے سر اٹھا
قیصر الجعفری