بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے
شام ڈھلے بھی گھر پہنچوں تو آدھی رات لگے
مٹھی بند کئے بیٹھا ہوں کوئی دیکھ نہ لے
چاند پکڑنے گھر سے نکلا جگنو ہات لگے
تم سے بچھڑے دل کو اجڑے برسوں بیت گئے
آنکھوں کا یہ حال ہے اب تک کل کی بات لگے
تم نے اتنے تیر چلائے سب خاموش رہے
ہم تڑپے تو دنیا بھر کے الزامات لگے
خط میں دل کی باتیں لکھنا اچھی بات نہیں
گھر میں اتنے لوگ ہیں جانے کس کے ہات لگے
ساون ایک مہینے قیصرؔ آنسو جیون بھر
ان آنکھوں کے آگے بادل بے اوقات لگے
غزل
بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے
قیصر الجعفری