EN हिंदी
دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو | شیح شیری
din Dhala raat phir aa gai so raho so raho

غزل

دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو

ناصر کاظمی

;

دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو

سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو

گرم سنسان قریوں کی دھرتی مہکنے لگی
خاک رشک ارم بن گئی سو رہو سو رہو

رزم گاہ جہاں بن گئی جائے امن و اماں
ہے یہی وقت کی راگنی سو رہو سو رہو

کیسے سنسان ہیں آسماں چپ کھڑے ہیں مکاں
ہے فضا اجنبی اجنبی سو رہو سو رہو

تھک گئے ناقہ و سارباں تھم گئے کارواں
گھنٹیوں کی صدا سو گئی سو رہو سو رہو

چاندنی اور دھوئیں کے سوا دور تک کچھ نہیں
سو گئی شہر کی ہر گلی سو رہو سو رہو

گردش وقت کی لوریاں رات کی رات ہیں
پھر کہاں یہ ہوا یہ نمی سو رہو سو رہو

ساری بستی کے لوگ اس مدھر لے میں کھوئے گئے
دور بجنے لگی بانسری سو رہو سو رہو

دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو

گھر کے دیوار و در راہ تک تک کے شل ہو گئے
اب نہ آئے گا شاید کوئی سو رہو سو رہو

سست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے
غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو

منہ اندھیرے ہی ناصرؔ کسے ڈھونڈنے چل دیئے
دور ہے صبح روشن ابھی سو رہو سو رہو