EN हिंदी
نجیب احمد شیاری | شیح شیری

نجیب احمد شیر

15 شیر

آسمانوں سے زمینوں پہ جواب آئے گا
ایک دن رات ڈھلے یوم حساب آئے گا

نجیب احمد




ہم تو سمجھے تھے کہ چاروں در مقفل ہو چکے
کیا خبر تھی ایک دروازہ کھلا رہ جائے گا

نجیب احمد




اک تری یاد گلے ایسے پڑی ہے کہ نجیبؔ
آج کا کام بھی ہم کل پہ اٹھا رکھتے ہیں

نجیب احمد




اس دائرۂ روشنی و رنگ سے آگے
کیا جانیے کس حال میں بستی کے مکیں ہیں

نجیب احمد




خیمۂ جاں کی طنابوں کو اکھڑ جانا تھا
ہم سے اک روز ترا غم بھی بچھڑ جانا تھا

نجیب احمد




کس نے وفا کے نام پہ دھوکا دیا مجھے
کس سے کہوں کہ میرا گنہ گار کون ہے

نجیب احمد




موت سے زیست کی تکمیل نہیں ہو سکتی
روشنی خاک میں تحلیل نہیں ہو سکتی

نجیب احمد




مری نمود کسی جسم کی تلاش میں ہے
میں روشنی ہوں اندھیروں میں چل رہا ہوں ابھی

نجیب احمد




مری زمیں مجھے آغوش میں سمیٹ بھی لے
نہ آسماں کا رہوں میں نہ آسماں میرا

نجیب احمد