EN हिंदी
خیمۂ جاں کی طنابوں کو اکھڑا جانا تھا | شیح شیری
KHema-e-jaan ki tanabon ko ukhDa jaana tha

غزل

خیمۂ جاں کی طنابوں کو اکھڑا جانا تھا

نجیب احمد

;

خیمۂ جاں کی طنابوں کو اکھڑ جانا تھا
ہم سے اک روز ترا غم بھی بچھڑ جانا تھا

کون سے کاج سنورتے ہیں ترے ہونے سے
کون سا کام نہ ہونے سے بگڑ جانا تھا

بیعت عشق نہ کی بیعت شاہی کے لیے
قصر بسنا تھے سو مقتل کو اجڑ جانا تھا

سنگ ریزوں کی کمی کب تھی سر راہ وصال
دل کم ظرف کا دامن ہی سکڑ جانا تھا

اور کب تک یوں ہی بے گور و کفن رکھتے انہیں
سرد خانوں میں بھی لاشوں کو اکڑ جانا تھا

کیا خبر تھی زر احساس کے لٹتے ہی نجیبؔ
اک خلا سا در و دیوار میں پڑ جانا تھا