نشاں کسی کو ملے گا بھلا کہاں میرا
کہ ایک روح تھا میں جسم تھا نشاں میرا
ہر ایک سانس نیا سال بن کے آتا ہے
قدم قدم ابھی باقی ہے امتحاں میرا
مری زمیں مجھے آغوش میں سمیٹ بھی لے
نہ آسماں کا رہوں میں نہ آسماں میرا
چلا گیا ترے ہم راہ خوف رسوائی
کہ تو ہی راز تھا اور تو ہی راز داں میرا
تجھے بھی میری طرح دھوپ چاٹ جائے گی
اگر رہا نہ ترے سر پہ سائباں میرا
ملال رنگ جلال و جمال ٹھہرا ہے
دیار سنگ ہوا ہے دیار جاں میرا
کئی نجیبؔ اسی آگ سے جنم لیں گے
کہ میری راکھ سے بننا ہے آشیاں میرا

غزل
نشاں کسی کو ملے گا بھلا کہاں میرا
نجیب احمد