EN हिंदी
نجیب احمد شیاری | شیح شیری

نجیب احمد شیر

15 شیر

نجیبؔ اک وہم تھا دو چار دن کا ساتھ ہے لیکن
ترے غم سے تو ساری عمر کا رشتہ نکل آیا

نجیب احمد




پھر یوں ہوا کہ مجھ پہ ہی دیوار گر پڑی
لیکن نہ کھل سکا پس دیوار کون ہے

نجیب احمد




رکوں تو حجلۂ منزل پکارتا ہے مجھے
قدم اٹھاؤں تو رستہ نظر نہیں آتا

نجیب احمد




وہی رشتے وہی ناطے وہی غم
بدن سے روح تک اکتا گئی تھی

نجیب احمد




زمیں پہ پاؤں ذرا احتیاط سے دھرنا
اکھڑ گئے تو قدم پھر کہاں سنبھلتے ہیں

نجیب احمد




زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے
کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں

نجیب احمد