EN हिंदी
اک وہم کی صورت سر دیوار یقیں ہیں | شیح شیری
ek wahm ki surat sar-e-diwar-e-yaqin hain

غزل

اک وہم کی صورت سر دیوار یقیں ہیں

نجیب احمد

;

اک وہم کی صورت سر دیوار یقیں ہیں
دیکھو تو ہیں موجود نہ دیکھو تو نہیں ہیں

ہم سے کشش موجۂ رفتار نہ پوچھو
ہم اہل محبت تو گرفتار زمیں ہیں

اس راہ سے ہٹ کر گزر اے ناقۂ لیلیٰ
اس گوشۂ صحرا میں ہم آرام گزیں ہیں

چھوڑیں بھی تو کس طرح ہم اس شہر کو چھوڑیں
اس نجد کے پابند ترے خاک نشیں ہیں

اس دائرۂ روشنی و رنگ سے آگے
کیا جانیے کس حال میں بستی کے مکیں ہیں

وہ تب بھی گریزاں تھے مگر دشمن دل تھے
وہ اب بھی گریزاں ہیں مگر دشمن دیں ہیں

ہر مرحلۂ بود تھا نابود کی منزل
لیکن ترے ہوتے ہمیں لگتا تھا ہمیں ہیں

کس طور سمیٹیں تری پلکوں کے ستارے
کہنے کو تو شاعر ہیں مگر اپنے تئیں ہیں