EN हिंदी
لیاقت جعفری شیاری | شیح شیری

لیاقت جعفری شیر

14 شیر

ایک آسیب تعاقب میں لگا رہتا ہے
میں جو رکتا ہوں تو پھر اس کی صدا چلتی ہے

لیاقت جعفری




حالانکہ پہلے سائے سے رہتی تھی کشمکش
اب اپنے بوجھ سے ہی دبا جا رہا ہوں میں

لیاقت جعفری




ہم بھی جی بھر کے تجھے کوستے پھرتے لیکن
ہم ترا لہجۂ بے باک کہاں سے لائیں

لیاقت جعفری




لفظ کو الہام معنی کو شرر سمجھا تھا میں
درحقیقت عیب تھا جس کو ہنر سمجھا تھا میں

لیاقت جعفری




میں آخری تھا جسے سرفراز ہونا تھا
مرے ہنر میں بھی کوتاہیاں نکل آئیں

لیاقت جعفری




میں بہت جلد لوٹ آؤں گا
تم مرا انتظار مت کرنا

لیاقت جعفری




میں کچھ دن سے اچانک پھر اکیلا پڑ گیا ہوں
نئے موسم میں اک وحشت پرانی کاٹتی ہے

لیاقت جعفری




مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے

لیاقت جعفری




پھر مرتب کیے گئے جذبات
عشق کو ابتدا میں رکھا گیا

لیاقت جعفری