حالانکہ پہلے دن سے کہا جا رہا ہوں میں
لیکن کہاں کسی کو سنا جا رہا ہوں میں
لاچار و بد حواس گھنے جنگلوں کے بیچ
دریا کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا ہوں میں
پچھتا رہے ہیں سب مرا پنجر نکال کر
دیوار میں دوبارہ چنا جا رہا ہوں میں
حالانکہ پہلے سائے سے رہتی تھی کشمکش
اب اپنے بوجھ سے ہی دبا جا رہا ہوں میں
تیرے سنبھالنے سے بھی پکڑی نہ میں نے آگ
اب اور بھی زیادہ بجھا جا رہا ہوں میں
پہلے پہل تو خود سے ہی منسوب تھے یہ اشک
اب اس کی آنکھ سے بھی بہا جا رہا ہوں میں
یہ دن بھی کیسا سخت شکنجہ ہے جعفریؔ
اب جس پہ ساری رات کسا جا رہا ہوں میں
غزل
حالانکہ پہلے دن سے کہا جا رہا ہوں میں
لیاقت جعفری