کوئی سمجھاؤ دریا کی روانی کاٹتی ہے
کہ میرے سانس کو تشنہ دہانی کاٹتی ہے
میں باہر تو بہت اچھا ہوں پر اندر ہی اندر
مجھے کوئی بلائے ناگہانی کاٹتی ہے
میں دریا ہوں مگر کتنا ستایا جا رہا ہوں
کہ بستی روز آ کے میرا پانی کاٹتی ہے
زمیں پر ہوں مگر کٹ کٹ کے گرتا جا رہا ہوں
مسلسل اک نگاہ آسمانی کاٹتی ہے
میں کچھ دن سے اچانک پھر اکیلا پڑ گیا ہوں
نئے موسم میں اک وحشت پرانی کاٹتی ہے
کہ راجہ مر چکا ہے اور شہزادے جواں ہیں
یہ رانی کس طرح اپنی جوانی کاٹتی ہے
نظر والو تمہاری آنکھ سے شکوہ ہے مجھ کو
زباں والو تمہاری بے زبانی کاٹتی ہے
غزل
کوئی سمجھاؤ دریا کی روانی کاٹتی ہے
لیاقت جعفری