خامشی کو صدا میں رکھا گیا
ایک جادو ہوا میں رکھا گیا
چاک جاں سے اتار کر کوزہ
صحن آب و ہوا میں رکھا گیا
پھر مرتب کیے گئے جذبات
عشق کو ابتدا میں رکھا گیا
سنگ بنیاد تھی خلاؤں کی
ایک پتھر ہوا میں رکھا گیا
ایک کونپل سجائی اچکن پر
ایک خنجر قبا میں رکھا گیا
ایک دریا اٹھا کے لایا گیا
دشت کرب و بلا میں رکھا گیا
مشتہر کی گئیں دعائیں بہت
اور اثر بد دعا میں رکھا گیا
مجھ کو تخلیق سے گزارا گیا
اور خدا کی رضا میں رکھا گیا
انکشافات ہو چکے سارے
معجزے کو انا میں رکھا گیا
غزل
خامشی کو صدا میں رکھا گیا
لیاقت جعفری