پڑے پڑے نئی زر خیزیاں نکل آئیں
کٹے درخت میں پھر ٹہنیاں نکل آئیں
اس آئنے میں تھا سرسبز باغ کا منظر
چھوا جو میں نے تو دو تتلیاں نکل آئیں
میں توڑ ڈالا گیا تو عمارت جاں میں
کہاں کہاں سے مری چابیاں نکل آئیں
میں آسمان پہ پہنچا تو لڑکھڑانے لگا
بلندیوں میں عجب پستیاں نکل آئیں
ٹھہر گئے تو میسر ہوئی نہ جائے اماں
جو چل پڑے تو کئی بستیاں نکل آئیں
وہی نصیب کہ میں شہریار جس سے بنا
اسی نصیب میں تنگ دستیاں نکل آئیں
مرے علاج کو اللہ استقامت دے
مرے مریض کی پھر پسلیاں نکل آئیں
میں آسمان سے اترا زمین کی جانب
زمیں سے میری طرف سیڑھیاں نکل آئیں
وہی سوراخ جہاں چھپکلی کا ڈیرا تھا
اسی سوراخ سے پھر چیونٹیاں نکل آئیں
ابھی ابھی تو سنبھالا گیا تھا گرد و غبار
حصار دشت میں پھر آندھیاں نکل آئیں
سنبھال رکھا تھا امی نے جس کو موت تلک
اسی کباڑ سے کچھ تختیاں نکل آئیں
میں آخری تھا جسے سرفراز ہونا تھا
مرے ہنر میں بھی کوتاہیاں نکل آئیں
غزل
پڑے پڑے نئی زر خیزیاں نکل آئیں
لیاقت جعفری