یہ جو رہ رہ کے سر دشت ہوا چلتی ہے
کتنی اچھی ہے مگر کتنا برا چلتی ہے
ایک آسیب تعاقب میں لگا رہتا ہے
میں جو رکتا ہوں تو پھر اس کی صدا چلتی ہے
ہائے وہ سانس کہ رکتی ہے تو کیا رکتی ہے
ہائے وہ آنکھ کہ چلتی ہے تو کیا چلتی ہے
پیش خیمہ ہے کسی اور نئی وحشت کا
یہ جو اترا کے ابھی باد صبا چلتی ہے
تیر چلتے ہیں لگاتار سواد جاں میں
اور تلوار کوئی ایک جدا چلتی ہے
بیچ دریا کے عجب جشن بپا ہے یارو
ساتھ کشتی کے کوئی موج بلا چلتی ہے
آج کچھ اور ہی منظر ہے مرے چاروں طرف
غیر محسوس طریقے سے ہوا چلتی ہے
میں بظاہر تو ہوں آسودہ پہ میرے اندر
دھیمے دھیمے سے کہیں آہ و بکا چلتی ہے
یوں تو بے باک بنا پھرتا ہے وہ یاروں میں
اس کی آنکھوں میں عجب شرم و حیا چلتی ہے
میرے مولا جو رہے صرف کہا تیرا رہے
میرے ہونٹوں پہ یہی ایک دعا چلتی ہے
غزل
یہ جو رہ رہ کے سر دشت ہوا چلتی ہے
لیاقت جعفری