اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے
میں جگنو ہوں مجھے اک شب کی ویرانی میں رہنا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
خوشیاں دیتے دیتے اکثر خود غم میں مر جاتے ہیں
ریشم بننے والے کیڑے ریشم میں مر جاتے ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ
کوئی بھی یقیں دل کو شادؔ کر نہیں سکتا
روح میں اتر جائے جب گماں کی تنہائی
خوشبیر سنگھ شادؔ
کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ
تو مجھ سے عہد گذشتہ کا اب حساب نہ پوچھ
خوشبیر سنگھ شادؔ
کچھ طلب میں بھی اضافہ کرتی ہیں محرومیاں
پیاس کا احساس بڑھ جاتا ہے صحرا دیکھ کر
خوشبیر سنگھ شادؔ
میں اپنے روبرو ہوں اور کچھ حیرت زدہ ہوں میں
نہ جانے عکس ہوں چہرہ ہوں یا پھر آئنہ ہوں میں
خوشبیر سنگھ شادؔ
میں بارہا تری یادوں میں اس طرح کھویا
کہ جیسے کوئی ندی جنگلوں میں گم ہو جائے
خوشبیر سنگھ شادؔ
میں کب سے نیند کا مارا ہوا ہوں اور کب سے
یہ میری جاگتی آنکھیں ہیں محو خواب نہ پوچھ
خوشبیر سنگھ شادؔ
میں نے تو تصور میں اور عکس دیکھا تھا
فکر مختلف کیوں ہے شاعری کے پیکر میں
خوشبیر سنگھ شادؔ