خوشیاں دیتے دیتے اکثر خود غم میں مر جاتے ہیں
ریشم بننے والے کیڑے ریشم میں مر جاتے ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ
اندھیروں میں بھٹکنا ہے پریشانی میں رہنا ہے
میں جگنو ہوں مجھے اک شب کی ویرانی میں رہنا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے
نئے کردار ماضی کی کتابوں سے نکل آئے
خوشبیر سنگھ شادؔ
اسی امید پر تو کاٹ لیں یہ مشکلیں ہم نے
اب اس کے بعد تو اے شادؔ آسانی میں رہنا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
ہم اپنے گھر میں بھی اب بے سر و ساماں سے رہتے ہیں
ہمارے سلسلے خانہ خرابوں سے نکل آئے
خوشبیر سنگھ شادؔ
ایک ہم ہیں کہ پرستش پہ عقیدہ ہی نہیں
اور کچھ لوگ یہاں بن کے خدا بیٹھے ہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ
چلو اچھا ہوا آخر تمہاری نیند بھی ٹوٹی
چلو اچھا ہوا اب تم بھی خوابوں سے نکل آئے
خوشبیر سنگھ شادؔ
بھنور جب بھی کسی مجبور کشتی کو ڈبوتا ہے
تو اپنی بے بسی پر دور سے ساحل تڑپتا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ
بہت دنوں سے مرے بام و در کا حصہ ہے
مری طرح یہ اداسی بھی گھر کا حصہ ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ