صدائے دل نہ کہیں دھڑکنوں میں گم ہو جائے
یہ قافلہ نہ کہیں راستوں میں گم ہو جائے
یہ دل کا درد جو آنکھوں میں آ گیا ہے مری
میں چاہتا تھا مرے قہقہوں میں گم ہو جائے
تجھے خبر بھی ہے یہ بے حسوں کی بستی ہے
تری صدا نہ کہیں پتھروں میں گم ہو جائے
میں خود کو ڈھونڈھنے نکلا تو کھو گیا جیسے
نکل کے گھر سے کوئی راستوں میں گم ہو جائے
نہ جانے آج ہے تاروں کو کیوں یہ اندیشہ
یہ رات بھی نہ کہیں جگنوؤں میں گم ہو جائے
میں بارہا تری یادوں میں اس طرح کھویا
کہ جیسے کوئی ندی جنگلوں میں گم ہو جائے
چمن سے کیوں نہ شکایت ہو شادؔ رنگوں کو
ہر ایک پھول اگر خوشبوؤں میں گم ہو جائے
غزل
صدائے دل نہ کہیں دھڑکنوں میں گم ہو جائے
خوشبیر سنگھ شادؔ