میں اپنے روبرو ہوں اور کچھ حیرت زدہ ہوں میں
نہ جانے عکس ہوں چہرہ ہوں یا پھر آئنہ ہوں میں
مری مجبوریاں دیکھو کہ یکجائی کے پیکر میں
کسی بکھرے ہوئے احساس میں سمٹا ہوا ہوں میں
مرے اندر کے موسم ہی مجھے تعمیر کرتے ہیں
کبھی سیراب ہوتا ہوں کبھی صحرا نما ہوں میں
جو ہے وہ کیوں ہے آخر جو نہیں ہے کیوں نہیں ہے وہ
اسی گتھی کو سلجھانے ہی میں الجھا ہوا ہوں میں
یہ بات اب کیسے سمجھاؤں میں ان معصوم جھرنوں کو
گزر کر کن مراحل سے سمندر سے ملا ہوں میں
تبھی تو شادؔ میں ہوں معتبر اپنی نگاہوں میں
مناظر کو بڑی سنجیدگی سے سوچتا ہوں میں
غزل
میں اپنے روبرو ہوں اور کچھ حیرت زدہ ہوں میں
خوشبیر سنگھ شادؔ