دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے
سنگ رواں کے دل میں بھی اک زخم آب ہے
ہر فرد آج ٹوٹتے لمحوں کے شور میں
عصر رواں کی جاگتی آنکھوں کا خواب ہے
وہ خود ہی اپنی آگ میں جل کر فنا ہوا
جس سائے کی تلاش میں یہ آفتاب ہے
اب کوئی نصف دام پہ بھی پوچھتا نہیں
یہ زندگی نصاب سے خارج کتاب ہے
پلکوں پہ آج نیند کی کرچیں بکھر گئیں
شیشے کی آنکھ میں کوئی پتھر کا خواب ہے
اے کیفؔ نا قدوں کے تعصب کے باوجود
میرا ہر ایک شعر ادب کی کتاب ہے
غزل
دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے
کیف احمد صدیقی