EN हिंदी
دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے | شیح شیری
dariya ki mauj hi mein nahin iztirab hai

غزل

دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے

کیف احمد صدیقی

;

دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے
سنگ رواں کے دل میں بھی اک زخم آب ہے

ہر فرد آج ٹوٹتے لمحوں کے شور میں
عصر رواں کی جاگتی آنکھوں کا خواب ہے

وہ خود ہی اپنی آگ میں جل کر فنا ہوا
جس سائے کی تلاش میں یہ آفتاب ہے

اب کوئی نصف دام پہ بھی پوچھتا نہیں
یہ زندگی نصاب سے خارج کتاب ہے

پلکوں پہ آج نیند کی کرچیں بکھر گئیں
شیشے کی آنکھ میں کوئی پتھر کا خواب ہے

اے کیفؔ نا قدوں کے تعصب کے باوجود
میرا ہر ایک شعر ادب کی کتاب ہے