اک سانپ مجھ کو چوم کے تریاق دے گیا
لیکن وہ اپنے ساتھ مرا زہر لے گیا
اکثر بدن کی قید سے آزاد ہو کے بھی
اپنا ہی عکس دور سے میں دیکھنے گیا
دنیا کا ہر لباس پہننا پڑا اسے
اک شخص جب نکل کے مرے جسم سے گیا
ایسی جگہ کہ موت بھی ڈر جائے دیکھ کر
میں خود کو زندگی سے بہت دور لے گیا
محسوس ہو رہا ہے کہ میں خود سفر میں ہوں
جس دن سے ریل پر میں تجھے چھوڑنے گیا
کتنی سبک سی آج مرے گھر کی شام تھی
میں فائلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے گیا
اشعار کا نزول ہے خالی دماغ میں
اے کیفؔ تو نہ جانے کہاں چھوڑنے گیا
غزل
اک سانپ مجھ کو چوم کے تریاق دے گیا
کیف احمد صدیقی