آیا یہ کون سایۂ زلف دراز میں
پیشانئ سحر کا اجالا لیے ہوئے
جمیلؔ مظہری
اے سجدہ فروش کوئے بتاں ہر سر کے لیے اک چوکھٹ ہے
یہ بھی کوئی شان عشق ہوئی جس در پے گئے سر پھوڑ لیا
جمیلؔ مظہری
بہ قدر پیمانۂ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
جمیلؔ مظہری
بتوں کو توڑ کے ایسا خدا بنانا کیا
بتوں کی طرح جو ہم شکل آدمی کا ہو
جمیلؔ مظہری
ہم محبت کا سبق بھول گئے
تیری آنکھوں نے پڑھایا کیا ہے
جمیلؔ مظہری
ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے
جمیلؔ مظہری
انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی
جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں
جمیلؔ مظہری
جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی
جمیلؔ مظہری
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
جمیلؔ مظہری