EN हिंदी
بلاؤ اس کو زباں داں جو مظہریؔ کا ہو | شیح شیری
bulao usko zaban-dan jo mazhari ka ho

غزل

بلاؤ اس کو زباں داں جو مظہریؔ کا ہو

جمیلؔ مظہری

;

بلاؤ اس کو زباں داں جو مظہریؔ کا ہو
مگر ہے شرط کہ اکیسویں صدی کا ہو

یقیں وہی ہے جو آغوش تیرگی میں ملے
سواد وہم میں ہم سایہ روشنی کا ہو

بتوں کو توڑ کے ایسا خدا بنانا کیا
بتوں کی طرح جو ہم شکل آدمی کا ہو

مرا غرور نہ کیوں ہو سرور سے خالی
جب اس کے بھیس میں اک چور کم تری کا ہو

بہت بجا ہے یہ مذہب کی موت پر ماتم
مگر کوئی تو عزا دار شاعری کا ہو

ہے وقت وہ کہ مسلم ہو آذری اس کی
صنم کدوں میں صنم ذہن مظہریؔ کا ہو