بخشش ہے تیری ہاتھ میں دنیا لیے ہوئے
میں چپ کھڑا ہوں دیدۂ بینا لیے ہوئے
صحرا کو کیا خبر کہ ہے ہر ذرۂ حقیر
مٹھی میں اپنی قسمت صحرا لیے ہوئے
اس شام سے ڈرو جو ستاروں کی چھاؤں میں
آتی ہو اک حسین اندھیرا لیے ہوئے
اے وقت اک نگاہ کہ کب سے کھڑے ہیں ہم
آئینۂ تصور فردا لیے ہوئے
گزرا تھا اس دیار سے سورج کا اک سفیر
ہر نقش پا میں اک ید بیضا لیے ہوئے
آیا یہ کون سایۂ زلف دراز میں
پیشانئ سحر کا اجالا لیے ہوئے
لائی تھی بے خودی جسے اس در پہ وہ جمیلؔ
جاتا ہے اب خودی کا جنازا لیے ہوئے
غزل
بخشش ہے تیری ہاتھ میں دنیا لیے ہوئے
جمیلؔ مظہری