EN हिंदी
جلیل عالیؔ شیاری | شیح شیری

جلیل عالیؔ شیر

19 شیر

عالی شعر ہو یا افسانہ یا چاہت کا تانا بانا
لطف ادھورا رہ جاتا ہے پوری بات بتا دینے سے

جلیل عالیؔ




اپنے دیئے کو چاند بتانے کے واسطے
بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں

جلیل عالیؔ




دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے

جلیل عالیؔ




دل پہ کچھ اور گزرتی ہے مگر کیا کیجے
لفظ کچھ اور ہی اظہار کئے جاتے ہیں

جلیل عالیؔ




دنیا تو ہے دنیا کہ وہ دشمن ہے سدا کی
سو بار ترے عشق میں ہم خود سے لڑے ہیں

جلیل عالیؔ




غرور عشق میں اک انکسار فقر بھی ہے
خمیدہ سر ہیں وفا کو علم بناتے ہوئے

جلیل عالیؔ




ہم کہ ہیں نقش سر ریگ رواں کیا جانے
کب کوئی موج ہوا اپنا نشاں لے جائے

جلیل عالیؔ




عشق خود سکھاتا ہے ساری حکمتیں عالؔی
نقد دل کسے دینا بار سر کہاں رکھنا

جلیل عالیؔ




جاں کھپاتے ہیں غم عشق میں خوش خوش عالؔی
کیسی لذت کا یہ آزار بنایا ہوا ہے

جلیل عالیؔ