جب بھی موسم ہنر حرف و بیاں لے جائے
یوں لگے جسم سے جیسے کوئی جاں لے جائے
ہم کہ ہیں نقش سر ریگ رواں کیا جانے
کب کوئی موج ہوا اپنا نشاں لے جائے
ایک آزادی کہ زندانئ خواہش کر دے
اک اسیری کہ کراں تا بہ کراں لے جائے
وحشت شوق مقدر تھی سو بچتے کب تک
اب تو یہ سیل بلا خیز جہاں لے جائے
ایک پرچھائیں کے پیچھے ہیں ازل سے عالؔی
یہ تعاقب ہمیں کیا جانے کہاں لے جائے
غزل
جب بھی موسم ہنر حرف و بیاں لے جائے
جلیل عالیؔ