EN हिंदी
یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے | شیح شیری
ye jo alfaz ko mahkar banaya hua hai

غزل

یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے

جلیل عالیؔ

;

یہ جو الفاظ کو مہکار بنایا ہوا ہے
ایک گل کا یہ سب اسرار بنایا ہوا ہے

سوچ کو سوجھ کہاں ہے کہ جو کچھ کہہ پائے
دل نے کیا کیا پس دیوار بنایا ہوا ہے

پیر جاتے ہیں یہ دریائے شب و روز اکثر
باغ اک سیر کو اس پار بنایا ہوا ہے

شوق دہلیز پہ بے تاب کھڑا ہے کب سے
درد گوندھے ہوئے ہیں ہار بنایا ہوا ہے

یہ تو اپنوں ہی کے چرکوں کی سلگ ہے ورنہ
دل نے ہر آگ کو گلزار بنایا ہوا ہے

توڑنا ہے جو تعلق تو تذبذب کیسا
شاخ احساس پہ کیا بار بنایا ہوا ہے

جاں کھپاتے ہیں غم عشق میں خوش خوش عالؔی
کیسی لذت کا یہ آزار بنایا ہوا ہے