سبیل سجدۂ نا مختتم بناتے ہوئے
خدا تک آئے ہیں کیا کیا صنم بناتے ہوئے
غرور عشق میں اک انکسار فقر بھی ہے
خمیدہ سر ہیں وفا کو علم بناتے ہوئے
ترے خیال کی رو ہے کہ کوئی موج طرب
گزر رہی ہے عجب زیر و بم بناتے ہوئے
جبین وقت پہ ثبت اپنا نقش اس نے کیا
دلوں کے داغ چراغ حرم بناتے ہوئے
تو کیا ضرور کہ تحقیر خلق کرتے پھرو
اک اپنا عکس انا محتشم بناتے ہوئے
گزارتے ہیں کہاں زندگی گزرتی ہے
بس ایک راہ بہ سوئے عدم بناتے ہوئے
غزل
سبیل سجدۂ نا مختتم بناتے ہوئے
جلیل عالیؔ