لٹتے ہیں بہت سہل کہ دن ایسے کڑے ہیں
گھر میں نہیں جیسے کہیں جنگل میں پڑے ہیں
سر سانجھ کے کب ہیں فقط اک شور انا ہے
چاہت کے قبیلے نہیں خواہش کے دھڑے ہیں
کس رنگ سے تم سنگ زمانے کے چلے ہو
ہر ننگ میں نشے تمہیں کچھ اور چڑھے ہیں
دن رات ہیں بے مہر ہواؤں کے حوالے
پتوں کی طرح جیسے درختوں سے جھڑے ہیں
دنیا تو ہے دنیا کہ وہ دشمن ہے سدا کی
سو بار ترے عشق میں ہم خود سے لڑے ہیں
یلغار کروں کیا مرے پندار کے پرچم
رستے میں پہاڑوں کی طرح آن کھڑے ہیں
اتنے بھی تہی دست تعلق نہیں عالؔی
اس شہر میں کچھ اپنے بھی مشرب کے تھڑے ہیں
غزل
لٹتے ہیں بہت سہل کہ دن ایسے کڑے ہیں
جلیل عالیؔ