EN हिंदी
اپنے ہونے سے بھی انکار کئے جاتے ہیں | شیح شیری
apne hone se bhi inkar kiye jate hain

غزل

اپنے ہونے سے بھی انکار کئے جاتے ہیں

جلیل عالیؔ

;

اپنے ہونے سے بھی انکار کئے جاتے ہیں
ہم کہ رستہ ترا ہموار کئے جاتے ہیں

روز اب شہر میں سجتے ہیں تجارت میلے
لوگ صحنوں کو بھی بازار کئے جاتے ہیں

ڈالتے ہیں وہ جو کشکول میں سانسیں گن کر
کل کے سپنے بھی گرفتار کئے جاتے ہیں

کس کو معلوم یہاں اصل کہانی ہم تو
درمیاں کا کوئی کردار کئے جاتے ہیں

دل پہ کچھ اور گزرتی ہے مگر کیا کیجے
لفظ کچھ اور ہی اظہار کئے جاتے ہیں

میرے دشمن کو ضرورت نہیں کچھ کرنے کی
اس سے اچھا تو مرے یار کئے جاتے ہیں