EN हिंदी
اسماعیلؔ میرٹھی شیاری | شیح شیری

اسماعیلؔ میرٹھی شیر

55 شیر

ہر شکل میں تھا وہی نمودار
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی

اسماعیلؔ میرٹھی




اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں

اسماعیلؔ میرٹھی




جب غنچہ کو واشد ہوئی تحریک صبا سے
بلبل سے عجب کیا جو کرے نغمہ سرائی

اسماعیلؔ میرٹھی




جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس
عزت کھو دی سخنوری کی

اسماعیلؔ میرٹھی




جس نے چشم مست ساقی دیکھ لی
تا قیامت اس پہ ہشیاری حرام

اسماعیلؔ میرٹھی




کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا

اسماعیلؔ میرٹھی




کھولا ہے مجھ پہ سر حقیقت مجاز نے
یہ پختگی صلہ ہے خیالات خام کا

اسماعیلؔ میرٹھی




خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو
ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا

اسماعیلؔ میرٹھی




کچھ مری بات کیمیا تو نہ تھی
ایسی بگڑی کہ پھر بنی ہی نہیں

اسماعیلؔ میرٹھی