آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا
اسماعیلؔ میرٹھی
اغیار کیوں دخیل ہیں بزم سرور میں
مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں
اسماعیلؔ میرٹھی
اندیشہ ہے کہ دے نہ ادھر کی ادھر لگا
مجھ کو تو ناپسند وطیرے صبا کے ہیں
اسماعیلؔ میرٹھی
اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے
اسماعیلؔ میرٹھی
بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہلائے بد اچھا بد نام برا
اسماعیلؔ میرٹھی
چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا
اسماعیلؔ میرٹھی
دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں
اسماعیلؔ میرٹھی
دید وا دید کی رخصت ہی سہی
میرے حصہ کی قیامت ہی سہی
اسماعیلؔ میرٹھی
دلبری جذب محبت کا کرشمہ ہے فقط
کچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
اسماعیلؔ میرٹھی