جو بھلے برے کی اٹکل نہ مرا شعار ہوتا
نہ جزائے خیر پاتا نہ گناہ گار ہوتا
مے بے خودی کا ساقی مجھے ایک جرعہ بس تھا
نہ کبھی نشہ اترتا نہ کبھی خمار ہوتا
میں کبھی کا مر بھی رہتا نہ غم فراق سہتا
اگر اپنی زندگی پر مجھے اختیار ہوتا
یہ جو عشق جانستاں ہے یہ وہ بحر بیکراں ہے
نہ سنا کوئی سفینہ کبھی اس سے پار ہوتا
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا
ہے اس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہ ہی کاروبار ہوتا
غزل
جو بھلے برے کی اٹکل نہ مرا شعار ہوتا
اسماعیلؔ میرٹھی