تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ
میں اور مجال آرزو کی
اسماعیلؔ میرٹھی
تمہارے دل سے کدورت مٹائے تو جانیں
کھلا ہے شہر میں اک محکمہ صفائی کا
اسماعیلؔ میرٹھی
تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن ہے
تو ہی تو ہے تو میں کہاں تک ہوں
اسماعیلؔ میرٹھی
تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا
اسماعیلؔ میرٹھی
الٹی ہر ایک رسم جہان شعور ہے
سیدھی سی اک غزل مجھے لکھنی ضرور ہے
اسماعیلؔ میرٹھی
اسی کا وصف ہے مقصود شعر خوانی سے
اسی کا ذکر ہے منشا غزل سرائی کا
اسماعیلؔ میرٹھی
اٹھا حجاب تو بس دین و دل دیئے ہی بنی
جناب شیخ کو دعویٰ تھا پارسائی کا
اسماعیلؔ میرٹھی
واں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے
جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو
اسماعیلؔ میرٹھی
یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں
اسماعیلؔ میرٹھی