یاران بزم دہر میں کیا کیا تپاک تھا
لیکن جب اٹھ گئے تو نہ بار دگر ملے
اسماعیلؔ میرٹھی
ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے
اسماعیلؔ میرٹھی
اغیار کیوں دخیل ہیں بزم سرور میں
مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں
اسماعیلؔ میرٹھی
اندیشہ ہے کہ دے نہ ادھر کی ادھر لگا
مجھ کو تو ناپسند وطیرے صبا کے ہیں
اسماعیلؔ میرٹھی
اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے
اسماعیلؔ میرٹھی
بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہلائے بد اچھا بد نام برا
اسماعیلؔ میرٹھی
چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا
لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا
اسماعیلؔ میرٹھی
دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں
اسماعیلؔ میرٹھی
دید وا دید کی رخصت ہی سہی
میرے حصہ کی قیامت ہی سہی
اسماعیلؔ میرٹھی